021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
صرف ساڑھے سات تولہ سونے میں زکاۃ کا حکم
82057زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

اگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سے معمولی کم سونا ہے اور کوئی سامان نصاب نہیں ہے تو کیا وہ اس پر زکوۃ دےگا ؟ اگر نہیں تو وضاحت فرما دیجئے تاکہ اشکال دور ہو جائےکہ جب ساڑھے باون تولہ چاندی  پر زکاۃ دے گاتو ساڑھے سات تولہ سے کچھ کم سونے پر زکاۃ کیوں نہیں دے گا؟۔ جزاک اللہ خیر

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

چونکہ سونے کی یہ مقدار نصاب سے کم ہے،لہذا اس پر زکاۃ نہیں ہو گی۔ زکاۃ کے  حوالے سےشریعت میں دو الگ الگ نصاب متعین ہیں۔ایک سونے کا نصاب ہے کہ اگر کسی کے پاس صرف سونا ہے  اور کوئی مال زکاۃ نہیں تو اس پر زکاۃ فرض ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ساڑھے سات تولے یا اس سے زائدسونا ہو۔  دوسرا چاندی کا نصاب ہے کہ اگر کسی کے پاس صرف چاندی ہے اورکوئی مال زکاۃ نہیں تو اس پر زکاۃ فرض ہونے کے لیے ضروری ہے کہ چاندی کی مقدار ساڑھے باون تولے  یا اس سے زائد ہو۔شریعت کے متعین کردہ نصاب کو برقرار رکھنا ضروری ہے،اس میں ردوبدل کی گنجائش نہیں۔  اب اگر کسی کے پاس صرف سونا ہے اور وہ سونے کے نصاب یعنی ساڑھے سات تولہ سے کم ہے تو اس پر زکاۃ نہیں ہو گی اگرچہ اس سونے کی قیمت  ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت  سے زائد ہو۔

جس کےپاس  سونے یا چاندی کے ساتھ دیگر مال زکاۃ بھی ہو تو  اگر سب چیزوں کی قیمت چاندی کے نصاب تک پہنچے تو زکاۃ واجب ہو گی۔

حوالہ جات
قال جمع من العلماء رحمهم الله تعالى : وفي كل عشرين مثقال ذهب ،نصف مثقال مضروبا كان أو لم يكن، مصوغا أو غير مصوغ ،حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبيكة، كذا في الخلاصة. ويعتبر فيهما أن يكون المؤدى قدر الواجب وزنا، ولا يعتبر فيه القيمة عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى.( الفتاوى الهندية:1/ 178)
قال العلامة الزيلعي رحمه الله تعالى : (‌والمعتبر ‌وزنهما أداء ووجوبا) أي يعتبر في الذهب والفضة أن يكون المؤدى قدر الواجب وزنا، ولا تعتبر فيه القيمة ،وكذا في حق الوجوب يعتبر أن يبلغ وزنهما نصابا، ولا تعتبر فيه القيمة.(تبيين الحقائق :1/ 278)
قال العلامة ابن عابدين  رحمه الله تعالى :قوله:( ووجوبا) أي من حيث الوجوب؛ يعني يعتبر في الوجوب أن ‌يبلغ ‌وزنهما ‌نصابا نهر، حتى لو كان له إبريق ذهب أو فضة وزنه عشرة مثاقيل أو مائة درهم وقيمته لصياغته عشرون أو مائتان لم يجب فيه شيء إجماعا.( رد المحتار :2/ 297)
قال جمع من العلماء رحمهم الله تعالى:ولو ضم أحد النصابين إلى الأخر حتى يؤدي كله من الذهب أو من الفضة لا بأس به لكن يجب أن يكون التقويم بما هو أنفع للفقراء قدرا ورواجا، وإلا فيؤدي من كل واحد ربع عشره ،كذا في محيط السرخسي.( الفتاوى الهندية:1/ 179)

    ہارون عبداللہ

    دارالافتاء، جامعۃ الرشید،كراچی

        20     جماد ی الاولی1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ہارون عبداللہ بن عزیز الحق

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے