021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سونے کے کاروبار میں انویسٹمنٹ کا حکم
82396مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

ہمارا سونے کا کام ہے۔ کیا سونے کے کاروبار میں سونے میں انویسٹمنٹ لینا جائز ہے ؟ یعنی مثال کے طور پر کوئی سونے میں انویسٹمنٹ کرنا چاہے کہ 100 گرام سونا انویسٹ کر رہاہو اور ماہانہ منافع اس کو کیش کی شکل میں ملے اور اس کی انویسٹمنٹ سونے میں ہی شمار ہو اور انویسٹمنٹ کرنے والا جب بھی اپنی انویسٹمنٹ واپس لینا چاہے تو اس کو سونے کی شکل میں واپس کریں گے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مضاربت میں خالص سونے اور چاندی کو رأ س المال بنانے کے لیے شرط یہ ہے کہ ان کو بطور ثمن استعمال کرنے کا عام رواج اور عرف ہو۔جبکہ ہمارے معاشرے میں لین دین کے لیے خالص سونے اور چاندی کو عمومی رواج نہیں ہےلہذا   صورت مسئولہ میں سونے میں انویسٹمنٹ کرنا درست نہیں۔اس صورت میں اگر معاملہ کر  لیا گیا تو نفع  اور نقصان کا مالک رب المال  ہو گا اور مضارب کے لیے اجرت مثل ہو گی۔مضاربت کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ اس پر منا فع کی مقدار متعین ہو تو پھر جائز نہ ہو گا۔البتہ اگر نفع تعیین کی بجائے فیصدی اعتبا ر سے طے ہوا ہو تومضاربت جائز ہو گی۔

حوالہ جات
قال العلامة الكاساني رحمه الله تعالى :(وأما) تبر الذهب والفضة،فقد جعله في هذا الكتاب بمنزلة العروض، وجعله في كتاب الصرف بمنزلة الدراهم والدنانير، والأمر فيه موكول إلى التعامل، فإن كان الناس يتعاملون به،فهو بمنزلة الدراهم والدنانير،فتجوز المضاربة به،وإن كانوا لا يتعاملون به فهو كالعروض ،فلا تجوز المضاربة به.(بدائع الصنائع:6/ 82)
قال جمع من العلماء رحمهم الله تعالى : (ومنها) أن يكون نصيب المضارب من الربح معلوما على وجه لا تنقطع به الشركة في الربح ،كذا في المحيط. فإن قال: على أن لك من الربح مائة درهم أو شرط مع النصف أو الثلث عشرة دراهم لا تصح المضاربة ،كذا في محيط السرخسي.ولو شرط للمضارب ربح نصف المال أو ربح ثلث المال ،كانت المضاربة جائزة. ولو شرط لأحدهما ربح مائة درهم لا بعينها من رأس المال جاز. ولو شرط لأحدهما ربح هذه المائة بعينها أو ربح هذا النصف بعينه من المال فسدت .وإذا اشترط لأحدهما نصف الربح إلا عشرة دراهم أو ثلث الربح إلا خمسة دراهم فسدت المضاربة ،كذا في المحيط. ( الفتاوى الهندية:4/ 287)
قال العلامة الكاساني رحمه الله تعالى :أن المضاربة انعقدت على رأس مال من أحد الجانبين، وعلى العمل من الجانب الآخر، ولا يتحقق العمل إلا بعد خروجه من يد رب المال، فكان هذا شرطا موافقا مقتضى العقد، بخلاف الشركة؛ لأنها انعقدت على العمل من الجانبين.(بدائع الصنائع :6/ 84)

ہارون عبداللہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

16جماد ی الاخری1445ھ

                          

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ہارون عبداللہ بن عزیز الحق

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے