021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سونا ایک ریٹ پر خرید کر دوسرے ریٹ پر بیچنے کا حکم
82397خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

سونے کے دوریٹ چلتے ہیں ایک ریڈی ریٹ کہلاتا ہے۔ دوسر او یکلی ریٹ کہلاتا ہے۔ مثال کے طور پر آج کل دولاکھ چوبیس  ہزار روپے 224000 ریڈی ریٹ آرہا ہے ۔ اور ایک ریٹ ویکلی چلتا ہے، جو کہ دولاکھ پچیس ہزار یا دولاکھ پچیس ہزار پانچ سو روپے ہوتا ہے۔ اکثر اوقات لوگ اس طریقے سے کام کرتے ہیں کہ ریڈی ریٹ کے حساب سے مثال کے طور دو لاکھ چوبیس ہزار روپے میں سونے کا پیس خرید لیا۔ پیسے دے کر دوکاندار سے سونے کا پیس  اٹھانے کے بعد پھر فون پر دوکاندار سے کہتے ہیں کہ آپ کو پیسے دے کر جو پیس خریدا ہے وہ ویکلی ریٹ کے حساب سے دو لاکھ پچیس ہزار پانچ سو روپے کے حساب سے آپ کو فروخت کر دیا۔ اور دوکاندار سے کہتے ہیں کہ ایک ہفتے کے بعد اپنا سونے کا پیس ہم سے اٹھوا لیں اور دولاکھ پچیس ہزار روپے ہمیں بھیج دیجیے گا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ سونا خرید کر بیچنے والے کو پندرہ سو روپے کا نفع ہوا۔ کیا یہ جائز ہے۔؟

تنقیح: پوچھنے پرسائل نے بتایا کہ یہ معاملہ  لیبارٹری والے دکاندار سے کرتے ہیں۔وہ دکاندار کوسونا  ایک ہفتے کے ادھار پر بیچتے ہیں۔یعنی اگر کیش پر دیں تو ایک لاکھ پر دیں گے اور اگر ادھار پردیں گے تو  ایک لاکھ پانچ ہزار روپے میں دیں گے۔لین دین کچھ نہیں ہوتا بس ریٹ طے کر لیا جاتا ہے۔پھر  ایک ہفتے بعددکاندارجاکر پیسے دیتے ہیں اور اپنا سونا اٹھا لیتے ہیں اور ریٹ پہلے سے طے کردہ ہی ادا کیا جاتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سونے کی کرنسی کے بدلے ادھار خرید و فروخت بھی جائز ہے، البتہ  ادھار فروخت کرنے کی صورت میں اس کی قیمت اور ادائیگی کا وقت طے کرنا ضروری ہے۔اسی طرح سونے کی تعیین بھی ضروری ہے تا کہ ادھار کےبدلے ادھار کی خرید و فروخت لازم نہ آئے۔

صورت مسئولہ میں یہ  معاملہ درست نہیں ہے ،کیونکہ لیبارٹری والے جب معاملہ طے کرتے ہیں تو  اس وقت نہ تو قیمت کی ادائیگی ہوتی ہے اور نہ ہی سونا حوالے کیا جاتا ہے،لہذا یہ ادھار کے بدلے ادھار کی بیع ہو رہی ہے جو کہ نا جائز ہے۔اور یہ در حقیقت سٹہ کی ایک صورت ہے،کیونکہ یہاں فریقین کا مقصد سونے کی خرید و فروخت نہیں ہوتا،بلکہ سونے کی قیمت میں فرق برابر کر کے نفع حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔اور اس میں سونے کی قیمت کے بڑھنے  اور کم ہونے  کے دونوں احتمال ہوتے ہیں۔یہ سٹہ اور جوا ہے جو کہ شرعا حرام ہے۔

حوالہ جات
 قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ الله تعالى : القمار من القمر الذي يزاد تارة وينقص أخرى وسمي القمار قمارا؛ لأن كل واحد من القمارين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه ويجوز أن يستفيد مال صاحبه فيجوز الازدياد والنقصان في كل واحدة منهما فصار ذلك قمارا وهو حرام بالنص.(البحر الرائق:8/ 554)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى :قوله: ‌(فلو ‌باع ‌النقدين) تفريع على قوله وإلا شرط التقابض فإنه يفهم منه أنه لا يشترط التماثل، وقيد بالنقدين؛ لأنه لو باع فضة بفلوس فإنه يشترط قبض أحد البدلين قبل الافتراق لا قبضهما ،كما في البحر عن الذخيرة.( رد المحتار :5/ 259)

ہارون عبداللہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

  16جماد ی الاخری1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ہارون عبداللہ بن عزیز الحق

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے