021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زمین کی بیع اور انتقال کے 49 سال بعد کسی کے ورثا کا اس میں ملکیت کا دعویٰ کرنا
82751دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

میرے دادا ملک حاجی عبد الرزاق مرحوم نے 1974ء میں سید عبد الحکیم سے اراضی خریدی ہے جس کا سالم انتقال ملک حاجی عبد الرزاق کے نام درج کیا ہے۔ سید عبد الحکیم نے یہ اراضی محمد فاضل نامی شخص سے خریدی تھی اور محمد فاضل نے غلام فاروق سے خریدی تھی، غلام فاروق اور ان کے ساتھ حصہ داران انتقال میں آرہے تھے جس میں غلام فاروق نے ٹوٹل ملکیت سید عبد الحکیم کو ٹرانسفر کی تھی۔ اس اراضی کے انتقال کو 49 سال گزرے، اس دوران کوئی دعویدار سامنے نہیں آیا۔ آج سے تقریبا پانچ (5) سال قبل اس اراضی (جو ملک حاجی عبد الرزاق کو منتقل ہوئی ہے) میں جو حصہ داران (عبد الغنی، محمد علی، محمد یوسف) تھے، انہوں نے اس زمین کی وراثت کا انتقال اپنے نام کیا ہے، حالانکہ زمین 49 سالوں سے حاجی عبد الرزاق کی ملکیت چلی آرہی ہے، اس اراضی کے کاغذات 49 سالوں سے ہمارے پاس موجود ہیں۔

آپ سے گزارش ہے کہ شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ عبد الغنی، محمد علی اور محمد یوسف غلام فاروق کے چچا زاد اور قریبی رشتہ دار ہیں، یہ سب فوت ہوچکے ہیں، اب ان کے ورثا یہ دعویٰ کر رہے ہیں۔  

 1970ء کی "جمعبندی" میں عبد الغنی، محمد علی اور محمد یوسف کے نام بھی غلام فاروق کے ساتھ اس زمین میں حصہ دار کے طور پر درج ہیں، "جمعبندی" ملکیت ظاہر کرتا ہے۔ یہ تقریبا پچیس (25) ایکڑ زمین ہے جس میں سے دو حصے غلام فاروق کے تھے، جبکہ ایک حصہ ان تینوں کے نام پر تھا۔ انہوں نے غلام فاروق سے پیسے لیے تھے اور یہ زمین اس کے پاس رہن کے طور پر رکھی تھی، رہن کا ذکر انتقال کے منسلکہ کاغذات میں بھی ہے، غلام فاروق کے پاس اس زمین کو بیچنے کا مکمل اختیار تھا، وہ جب یہ زمین بیچ رہا تھا تو ان تینوں کو پتا تھا۔

یہ زمین اب ویسے نہیں جیسے اس وقت تھی، اس پر ہم نے انگور کے باغات لگائے ہیں، چار دیواری کی ہے، ٹیوب ویل اور بجلی کے کنکشن لگائے ہیں۔ یہ زمین پچاس سال سے ہمارے پاس ہے، ہمارے دادا کا انتقال ہوا، ہمارے چچا اور والد صاحب کا انتقال ہوا، اب ہم اس کو استعمال کر رہے ہیں اور ملکیتی کاغذات بھی ہمارے پاس ہیں۔ جمعبندی اور انتقال کے کاغذات منسلک ہیں۔

اب چند سال پہلے ان تینوں کے ورثا نے پٹواری کو وہی "جمعبندی" دکھا کر اس زمین کا انتقال اپنے نام کرادیا ہے جس کا یہ دعویٰ کر رہے ہیں، ہم نے پٹواری سے کہا کہ اس زمین کے کاغذات تو 1974ء سے ہمارے دادا کے نام پر ہے، آپ نے ان کے نام پر کیسے انتقال کیا؟ تو اس نے بتایا کہ انہوں نے مجھے "جمعبندی" دکھائی جس میں ان کے نام بھی حصہ داران کے طور پر درج ہیں، اب میں یہ ختم کرلوں گا۔ ہم نے ان تینوں کے ورثا سے کہا کہ آپ لوگ اس وقت اور اب تک کیوں خاموش تھے؟ یہ زمین تو 49 سالوں سے ہمارے دادا کی ملکیت چلی آرہی ہے، اس وقت بات کرتے تو وہ کہنے لگے کہ ہم اپنے خاندانی مسائل میں لگے ہوئے تھے، اس لیے اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق غلام فاروق نے آپ کے دادا کو جو پچیس ایکڑ زمین بیچی تھی، اس میں اس کے اپنے دو حصوں کی خرید و فروخت تو بلا شبہہ درست ہوئی تھی اور وہ زمین آپ کے دادا کی ملکیت بن گئی تھی۔

جہاں تک اس ایک حصے کا تعلق ہے جو "جمعبندی" میں عبد الغنی، محمد علی اور محمد یوسف کے نام تھی تو اگر واقعۃً ان تینوں نے یہ زمین غلام فاروق کے قرض کے مقابلے میں اس کے پاس رہن کے طور پر رکھی ہوئی تھی اور اس زمین کی قیمت غلام فاروق کے قرض کے برابر یا اس سے کم تھی اور غلام فاروق نے ان تینوں کی اجازت سے اور ان کے علم میں لاکر اپنے قرض کی وصولی کے لیے یہ زمین بیچی تھی تو اس کی بیع بھی درست ہوئی تھی، اب ان تینوں کے ورثا کی بات اور دعویٰ کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔

نیز بغیر کسی معتبر عذر کے 49 سال تک دعویٰ نہ کرنا بذاتِ خود اس دعویٰ کے ناقابلِ سماعت ہونے کے لیے کافی ہے۔

حوالہ جات
المجلة (ص: 24):
 مادة 67: لا ينسب إلى ساكت قول، لكن السكوت في معرض الحاجة بيان، يعني أنه لا يقال لساكت أنه قال كذا، لكن السكوت في ما يلزم التكلم به إقرار وبيان.
شرح المجلة للأتاسي (1/182):
شرح المادة 67: ..… لو باع أجنبي مال أحد فضولیا وسلمه للمشتري، وصاحب المال یشاهد البیع والتسلیم وهو ساکت أو بلغه ذلك فسکت، لایعد سکوته توکیلا بالبیع و لا إجازة.
المجلة (ص: 333-336):
مادة 1659: إذا باع أحد مالا على أنه ملكه في حضور آخر لشخص وسلمه ثم ادعى الحاضر بأنه ملكه مع أنه كان حاضرا في مجلس البيع وسكت بلا عذر فينظر إلى أن الحاضر هل كان من أقارب البائع أم لا؟ فإن كان من أقاربه أو زوجها أو زوجته لا تسمع دعواه هذه مطلقا، وإن كان من الأجانب فلا يكون حضوره وسكوته في مجلس البيع فقط مانعا لدعواه، بل بعد حضوره وسكوته في مجلس البيع بلا عذر إن تصرف المشتري في ذلك الملك تصرف الملاك بناء أو هدما أو غرسا ورآه الحاضر، ثم بعد ذلك لو ادعى بقوله هذا ملكي أو لي فيه حصة فلا تسمع دعواه.
مادة 1660: لا تسمع دعوى الدين والوديعة والملك والعقار والميراث وما لا يعود من الدعاوي إلى العامة ولا إلى أصل الوقف في العقارات الموقوفة كدعوى المقاطعة أو التصرف بالإجارتين والتولية المشروطة والغلة بعد أن تركت خمس عشرة سنة.
مادة 1663: والمعتبر في هذا الباب يعني مرور الزمان المانع لاستماع الدعوى ليس هو إلا مرور الزمان الواقع بلا عذر، وأما الزمان الذي مر بعذر شرعي ككون المدعي صغيرا أو مجنونا أو معتوها سواء كان له وصي أو لم يكن أو كونه في ديار بعيدة مدة سفر أو كون خصمه من المتغلبة فلا يعتبر، مثلا لا يعتبر الزمان الذي مر حال صغر المدعي، وإنما يعتبر من تاريخ وصوله إلى حد البلوغ، كذلك إذا كان لرجل مع أحد المتغلبة دعوى ولم يمكنه الادعاء لامتداد زمان تغلب خصمه ووجد مرور الزمان لا يكون مانعا لاستماع الدعوى، وإنما يعتبر مرور الزمان من تاريخ زوال التغلب.
مادة 1669: إذا ترك أحد الدعوى بلا عذر ووجد مرور الزمان على ما ذكر آنفا فكما لا تسمع تلك الدعوى في حياته كذلك لا تسمع من ورثته بعد مماته أيضا.
مادة 1670: إذا ترك المورث الدعوى مدة وتركها الوارث أيضا مدة وبلغ مجموع المدتين حد مرور الزمان فلا تسمع.
شرح المجلة للأتاسي (5/157):
شرح المادة 1659: الکلام علی هذه المادة من وجوه:
الأول: أنه لیس في أصل المادة المترجمة ما یفید تقیید الأقارب بکونهم محارم، ولم أر هذا القید في کلام الفقهاء، والمذکور في کتب اللغة أن القرابة هي قرب الرحم مطلقا، وعلیه فالمراد من الأقارب ما یعم المحارم وغیرها، فافهم.
الثاني: أن قوله "باع مالا علی أنه ملکه" یشیر إلی أنه لو لم یصرح بکون المبیع ملکه تسمع دعوی قریبه الحاضر، وهذا وإن لم أره صریحا إلا أن له وجها وجیها، وهو أنه إذا لم یصرح بکون المبیع ملکه کان احتمال أنه باع مال غیره فضولیا ثابتا، فلا یکون سکوت قریبه الحاضر إقرارا بأنه ملك البایع. وقد قال في البزازیة آخر الباب الخامس عشر من الدعوی: والمالك إذا بیع ملکه وهو حاضر ساکت لایکون سکوته رضا عندنا، خلافا لابن أبي لیلی، اھ.
ویشیر إلی ما قلنا ما في الخیریة حیث سئل بما حاصله صك بیع ذکر فیه أن فلانا باع من فلانة ما هو جار  في ملکه جمیع الحصة الشایعة، وقدرها کذا من الحدود الفلاني بثمن کذا، وصدقت أخت البایع لأبیه ووالدتها علی البیع المذکور، ثم برزت الأخت وأمها المذکورتان یدعیان حصة في المبیع بطریق الإرث عن والد البایع، هل تسمع دعواهما أم لا؟ فأجاب بما لفظه: حیث صرح بأنه یبیع ملکه وقت عقد البیع کما ذکر في الصك وحضرتا وصدقتا کما ذکر فیه، لاتسمع دعواهما علیه؛ إذ فیه صریح الاعتراف منهما بأنه باع ملکه، فدعواهما الملك فیه بعده مناقضة منهما، فلاتسمع، کما هو ظاهر اھ.
الثالث: لا بد من تقیید القریب الحاضر بکونه عالما بالبیع، کما قیده في الکنز والملتقی والتنویر، وعبارة التنویر بزیادة قلیلة من الدر: باع عقارا أو حیوانا أو ثوبا وابنه وامرأته أو غیرها من أقاربه حاضر یعلم به، ثم ادعی الابن مثلا أنه ملکه لاتسمع دعواه، بخلاف الأجنبي، فإن
سکوته ولو جارا لایکون رضا، إلا إذا سکت الجار وقت البیع والتسلیم وتصرف المشتری فیه زرعا وبناء، فحینئذ لاتسمع دعواه اھ.  فلو کان حاضرا ولم یعلم به تسمع دعواه. وذکر في رد المحتار عن الرملي أن المراد من الحضور الاطلاع، وهو یشیر إلی أنه لو لم یکن حاضرا وإنما أخبره البایع وغیره بأنه أمس مثلا باع کذا علی أنه ملکه فسکت یکون الحکم کذلك، أي لاتسمع دعواه، ولیراجع النص.
الرابع: قال في رد المحتار: وفي فتاوی المص یعنی صاحب التنویر: إذا ادعی یعني القریب الحاضر عدم العلم بأنه ملکه وقت البیع یصدق.
شرح القواعد الفقهية للزرقا (ص: 202):
سكوت القريب أو أحد الزوجين إذا رأى قريبه أو زوجه يبيع شيئاً فإنه اعتراف منه بأنه لا حق له فيه مع أنه ليس هناك دلالة من الحال ولا ضرورة لدفع الغرر والضرر. وتفريعهم له على ما ذكر بناء على ما هو الاستحسان في الفرع المذكور قطعاً للتزوير الممكن بين الأقارب أكثر من غيرهم.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     11/رجب المرجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے