021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مکان کی خریداری میں بیٹے کانام شامل کرنے کاحکم
82728میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

بعد از سلام مسنون  عرض یہ ہے کہ وراثت کے حوالے سے    مجھے  ایک فتوی درکار ہے ،اس معاملے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ہمارا گھر جس کا پتہ  مکان  نمبر    f  98 سیکٹر g ۔ 11  گودھرا کالونی  ہے ،یہ مکان دو پلاٹ پر مشتمل ہے ، 1969 میں  جب یہ گھر خرید ا گیا ، تو اس کے چالان  پر دو نام  لکھوائے گئے  ،جن میں ایک نام   ہمارے  والدمحمد  اسماعیل ولد محمد   عیسی  صاحب مرحوم  کا  دوسرا  نام   ہمارے بڑے بھائی   محمد  اسحاق  ولد محمد  اسماعیل  کا،جب ا س گھر کو خریداگیا ، اس وقت  والد صاحب  کی اولاد   میں ہم سات  بہنیں  بھائی  ہوتے ہیں ، ا1970 کے بعد   ہمارے    بہن 3 بھائی پیدا ہوئے ،یوں  ہم دس  بھائی  بہنیں ہیں ، 3 بھائی 7 بہنیں ۔اس گھر کے کاغذات   میں آج بھی صرف ایک چالان  اور دوسرا پلاٹ  کا نقشہ ہے ۔اس کے علاوہ یہ گھر نہ کبھی   لیز ہوا ، اور  نہ گھر میں کبھی والدین کے درمیان  اس کی تقسیم  کے حوالے سے  کوئی بات ہوئی ، بلکہ مجھے دودستاویز  بھی  والد صاحب کے انتقال   کے بعد  2010 میں ملے  

 اب مسئلہ یہ ہے کہ  2003 میں والدہ کا انتقال ہوا ،  2007  میں بڑے بھائی  محمد  اسحاق کا انتقال ہوا ، اور 2010 میں  والد  صاحب بھی   اس دار فانی سے رخصت  ہوگئے ،اب اس  میراث کی  تقسیم کیسے ہوگی ،ہمیں فتوی درکار ہے

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح  ہوکہ میراث اس مال  کو کہاجاتا  ہے جو مرنے والے کے انتقال   کے وقت اس کی ملک میں   موجود ہو ،پھر یہ مال  ان ورثاء کا  حق ہوتا ہے  جو مرنے والے کے  انتقال کے وقت زندہ ہوں ، لہذا  صورت مسئولہ میں  آپ کی والدہ مرحومہ  کے ترکے کی حقدار   مرحومہ  کا شوہراور مرحومہ کی تمام  اولاد   ہیں اور میراث کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ آپکی   والد ہ مرحومہ نےاپنے انتقال  کے وقت ،  منقولہ غیر  منقولہ جائداد ، سونا  چاندی  ، نقدی  اور چھوٹا  بڑا  جو بھی سامان اپنی ملک میں  چھوڑا  ہے   سب مرحومہ    کا ترکہ ہے ، اس میں سے اولا  اگر مرحومہ  کے ذمے کسی کا قرض ہو   تو اس کو  ادا کیاجائے ، اس کے بعد   اگر مرحومہ  نے کسی  غیر وارث کے لئے کوئی جائز وصیت  کی ہو تو ایک تہائی  مال  کی حد تک اس پر عمل کیاجائے ، اس کے  مال کو مساوی   52    حصوں  میں تقسیم کرکے  شوہر   محمد اسماعیل کو 13حصے ،اور تینوں لڑکوں میں سے  ہرایک   کو  6،6 حصے،اور ساتوں  لڑکیوں میں  ہرایک   کو 3،3 حصے دئے جائیں گے۔اس کے بعد مرحوم محمد  اسحاق   کو  اپنی والدہ کے ترکے  سے جو مال ملا   اور خود   ان کی ملک   میں جو مال   تھا    وہ  اس کے شرعی   ورثاء میں   تقسیم   کیاجائے گا اس میں والد   محمد  اسماعیل ﴿مرحوم﴾ کا بھی    چھٹا حصہ  ہوگا ۔ آپ کے والد محمد اسماعیل  مرحوم   کے شرعی ورثاء  9افراد ہیں ،  دو لڑکے اور سات لڑکیا ں  یعنی  محمد اسحاق  مرحوم کو    اپنے والد کے ترکے سے  حصہ  نہیں ملے گا، کیونکہ  ان  کا انتقال   اپنے والد   سے پہلے ہوا ہے ۔ مذکورہ   ورثاء میں میراث کی تقسیم  اس طرح ہوگی   کہ  مرحوم محمد اسماعیل  نے  اپنےانتقال کے وقت مذکورہ مکان اور پلاٹ  سمیت منقولہ غیر منقولہ   جائداد ،سونا  چاندی ،نقدی  اور چھوٹا بڑا  جو بھی سامان اپنی ملک میں  چھوڑا  ہے ،سب مرحوم  کا ترکہ  ہے ، اس  میں سے اولا کفن دفن کا متوسط خرچہ نکالا جائے  گا ،اس کے  بعد اگر مرحوم کے ذمے   کسی کا  قرض ہو   ہو  تو اس کو ادا کیاجائے گا ،اس کے بعد  مرحوم  نے اگر کسی غیروارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو   تو  تہائی مال کی  حد تک اس پر  عمل کیاجائے گا ۔اس کے بعد مال کو  مساوی   13 حصوں  میں تقسیم کرکے  لڑکوں کو  2،2 حصے  اور  لڑکیوں کو ایک ایک  حصہ دیاجائے گا۔

حوالہ جات
......

حسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

١١ رجب ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے