021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کے بعد دوسالہ بچےکی پرورش کاحق کس کو ملے گا؟
82534طلاق کے احکامبچوں کی پرورش کے مسائل

سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی، اس کا دو سال کا ایک بیٹا ہے، عورت کہتی ہے کہ یہ بچہ میرے پاس رہے گا، جبکہ مرد کہتا ہے کہ یہ بیٹا میرے پاس رہے گا، سوال یہ ہے کہ یہ بچہ ان دونوں میں سے کس کے پاس رہے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

علیحدگی کی صورت میں اولاد کی پرورش کے بارے میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ سات سال تک بچے کی پرورش اور بالغ ہونے تک بچی کی پرورش کا ماں کو حق ہوتا ہے، اس کے بعد باپ کواولادکی پرورش اورتربیت  کا حق ملتا ہے، اس عمر سے پہلے باپ کا ماں سے اولاد زبردستی لے لینا جائز نہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں یہ بچہ سات سال تک ماں کی پرورش میں رہے گا، البتہ  ماں کا حقِِِِ پرورش اس وقت تک رہتا ہے، جب تک ماں بچے کے کسی غیر محرم سے شادی نہ کرے، لیکن اگر ماں  بچوں کے کسی غیر محرم سے شادی کر لے یا کوئی مستقل ملازمت اختیار کر لے، جس کی مشغولیت کی وجہ سے بچے کی تربیت میں حرج لازم آتا ہو تو اس صورت میں بچے کی نانی کو پرورش کا حق ہو گا، اگر وہ نہ ہو تو دادی کو حق ملے گا، وہ نہ ہو توبہن کو، اگر وہ نہ ہو تو  خالہ کو اور اگر وہ بھی نہ ہو تو پھوپھی کو حق ملے گا۔اگر ان میں سے کوئی بھی نہ ہو یا یہ خواتین اپنے حقِ پرورش سے دستبردار ہو جائیں تو ایسی صورت میں باپ کو اس بچے کی پرورش کا حق حاصل ہو گا۔یہ بھی یادر ہے کہ سات سال تک بچہ ماں کے پاس رہنے کے دوران بھی بچے کا نان ونفقہ وغیرہ باپ کے ذمہ ہی واجب ہوگا۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين ( (3/ 567) دار الفكر،بيروت:
(ولا خيار للولد عندنا مطلقا) ذكرا كان، أو أنثى خلافا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيا للمنية۔
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 254):
وفي القنية: الام أحق بالولد ولو سيئة السيرة معروفة بالفجور ما لم يعقل ذلك (أو غير مأمونة) ذكره في المجتبى بأن تخرج كل وقت وتترك الولد ضائعا۔
درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 412) دار إحياء الكتب العربية:
يشترط أيضا أن لا تكون متزوجة بغير محرم للصغير۔
حاشية ابن عابدين (3/ 557) دار الفكر-بيروت:
(قوله: بأن تخرج كل وقت إلخ) المراد كثرة الخروج، لأن المدار على ترك الولد ضائعا والولد في حكم الأمانة عندها، ومضيع الأمانة لا يستأمن، ولا يلزم أن يكون خروجها لمعصية حتى يستغني عنه بما قبله فإنه قد يكون لغيرها؛ كما لو كانت قابلة، أو غاسلة، أو بلانة أو نحو ذلك، ولذا قال في الفتح: إن كانت فاسقة أو تخرج كل وقت إلخ فعطفه على الفاسقة يفيد ما قلنا فافهم۔
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 283) دار احياء التراث العربي - بيروت:
" وإذا وقعت الفرقة ين الزوجين فالأم أحق بالولد " لما روى أن امرأة قالت يا رسول  الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء وحجري له حواء وثديي له سقاء وزعم أبوه أنه ينزعه مني فقال عليه الصلاة والسلام: " أنت أحق به مالم تتزوجي " ولأن الأم أشفق وأقدر على الحضانة فكان الدفع إليها أنظر وإليه أشار الصديق رضي الله عنه بقوله ريقها خير له من شهد وعسل عندك يا عمر قاله حين وقعت الفرقة بينه وبين امرأته والصحابة حاضرون متوافرون..... ولا تجبر الأم عليه " لأنها عست تعجز عن الحضانة " فإن لم تكن له أم فأم الأم أولى من أم الأب وإن بعدت " لأن هذه الولاية تستفاد من قبل الأمهات " فإن لم تكن أم الأم فأم الأب أولى من الأخوات " لأنها من الأمهات …… فإن لم تكن له جدة فالأخوات أولى من العمات والخالات ….. وتقدم الأخت لأب وأم " لأنها أشفق " ثم الأخت من الأم ثم الأخت من الأب " لأن الحق لهن من قبل الأم " ثم الخالات أولى من العمات " ترجيحا لقرابة الأم " وينزلن كما نزلنا الأخوات " معناه ترجيح ذات قرابتين ثم قرابة الأم " ثم العمات ينزلن كذلك وكل من تزوجت من هؤلاء يسقط حقها " لما روينا ولأن زوج الأم إذا كان أجنبيا يعطيه نزرا وينظر إليه شزرا

  محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

11/رجب المرجب1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے