021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وحیدالرحمن،عبدالوحیداوروحیدعبداللہ نام رکھنے کا حکم
82767جائز و ناجائزامور کا بیانبچوں وغیرہ کے نام رکھنے سے متعلق مسائل

سوال

بندے کا اصل اور والدین ماجدین کا رکھا ہوا نام وحید الرحمن ہے، جو کہ تمام اسناد وغیرہ میں لکھا ہوا چلا آرہا ہے، کچھ عرصہ قبل بعض حضرات علمائے کرام نے فرمایا کہ مناسب ومستحسن نہیں ہے، دونوں جزواللّٰه تعالیٰ کے صفاتی نام ہیں، اضافت میں لغوی معنی مراد لیتے ہوئے تاویلیں کرنی پڑیں گی،جبکہ مجھے "عبداللہ" نام پسند تھا اس لئے اپنے لئے وہی نام منتخب کرلیا، لیکن والدین کی خوشنودی کے لیے بطور سابقہ "وحید" بھی برقرار رکھا، لیکن ہوا یہ کہ نام ہی پورا " وحید عبداللہ " مشہور ہو کر استعمال ہونے لگا،چند سال بعد ایک اور مقام پر رہائش پذیر ہوا ،جہاں غیر ارادی طور پر عبد الوحید نام چل پڑا،اس کے متعلق حال ہی میں کچھ استفتاء بھی نظر سے گزرے جو درج ذیل ہیں:

السؤال:

لي صديق اسمه وحيد الله، وفي المجلس تساءلنا إذا كان اسم وحيد الله اسما حسنا، وهناك أسماء مثل: نعمت الله، خير الله، مجيب الله. فسؤالي لكم: هل مثل هذه الأسماء أسماء حسنة؟ أم يحسن عدم التسمية بتلك الأسماء؟ وبارك الله فيكم.

     الإجابــة:

الحمد لله، والصلاة والسلام على نبينا محمد، وعلى آله، وصحبه، ومن والاه، أما بعد:

فلا ينبغي التسمية باسم " وحيد الله" لأمرين:

أولهما: لما قد يتضمنه من معنى التزكية، لأن الوحيد معناه الذي ليس له نظير، ومنه قول عائشة -رضي الله عنها- وهي تصف عمر بن الخطاب: ذاك ابن الخطاب، لله أم حملت به، ودرت عليه، لقد أوحدت به. اهــ

قال ابن الأثير في النهاية: "قد أوحدت به" أي ولدته وحيدا فريدا، لا نظير له. اهــ، فإذا قيل: "وحيد الله" فكأنما قيل لا نظير له عند الله، أو لم يخلق الله له نظيرا.

وثانيهما: أنه من الأسماء المركبة، ويرى بعض العلماء أنه تكره التسمية بالأسماء المركبة مثل " نعمة الله" ونحوها.

قال الشيخ بكر أبو زيد: وتكره التسمية بالأسماء المركبة مثل: محمد أحمد ... وهي مدعاة إلى الاشتباه والالتباس، ولذا لم تكن معروفة في هدي السلف، وهي من تسميات القرون

المتأخرة؛ كما سبقت الإشارة إليه، ويلحق بها المضافة إلى لفظ (الله)؛ مثل: حسب الله، رحمة الله، جبرة الله؛ حاشا: عبد الله؛ فهو من أحب الأسماء إلى الله، أو المضافة إلى لفظ الرسول؛ مثل: حسب الرسول، وغلام الرسول ... وبينتها في ((تغريب الألقاب)).

السؤال:

رجل سمى ابنه: "عبد الوحيد" ظناً أن الوحيد صفة من صفات الله أو من أسمائه، والآن لا يقدر على تغييره بسبب الإجراءات الحكومية، والولد الآن كبير، فهل هذه التسمية صحيحة؟

الإجابة:

 التعبيد كما هو معلوم يكون لأسماء الله، ولا نعرف أن في أسماء الله: "الوحيد"، ولكنه من باب الإخبار أن الله تعالى وحيد في أفعاله وصفاته ليس له مشارك، والمعنى مفهوم، ويكون من باب الإخبار، وإذا بقي بهذا المعنى فلا بأس.

معنى .. ”وحيد“: ( وحيدة ) : المُتقدِّم في بأسٍ أو علمٍ أو جمالٍ أو غير ذلك كأنَّه لا مثل له فهو وحده لذلك ، الفريد ، من ليس له أنيس ، من ليس له أخ ، وبنو الوحيد بطن من العرب.و منفرد منعزل و معنى الاسم وحيد۔

نیزتوحید کا مادہ "وحد" ہے اور اس کے مصادر میں سے"وحد" اور "وحدۃ" زیادہ مشہور ہیں، جس کا مطلب ہے اکیلا اور بے مثال ہونا۔ "وحید"یا "وحد" اس کو کہتے ہیں جو اپنی ذات اور صفات میں اکیلی اور بے مثال ہو۔ "وحد" کا واؤ ہمزہ سے بدل کر "احد" بنا ہے، یہی لفظ اللہ تعالی نے سورہ اخلاص میں استعمال کیا ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا مذکورہ بالا عبارات کی رو سے وحید الرحمٰن اور عبد الوحید نام رکھنا کیسا ہے، مدلّل وضاحت فرمائیں کہ مستحسن بھی ہے یا نہیں؟اسی طرح کیا " وحید عبداللہ " نام رکھنا مستحسن ہے، یا یہ بھی مذکورہ وجوہات کی بنا غیر مستحسن ہے، اسے رکھنا چاہیے یا بدل دینا مستحسن رہے گا۔؟واضح رہے میری خواہش ہے کہ محض جواز اور گنجائش کے بجائے مستحسن ہونے کی بھی رعایت رکھوں، آپ حضرات رہنمائی فرماکر ممنون فرمائیں۔ بینوا توجروا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

لفظ "وحید" کا اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ہونے کا ذکر اگرچہ کسی روایت میں کسی صحیح مرفوع روایت میں نہیں ملا، مگر لغوی معنی کے اعتبار سے وحید تنہا، یکتا، بے مثال اور بے نظیر کو کہتے ہیں، لہذا لغوی معنی کے اعتبار سے اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ جل شانہ اور بندوں پر بھی کیا جا سکتا ہے، چنانچہ قرآن کریم کی آیتِ مبارکہ"ذرني ومن خلقتُ وحيدا"  [المدثر: آية 11] کے تحت امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ نے لفظ"وحیدا"  کے"خلقتُ" کی ضمیرِ فاعل اور ضمیرمفعول محذوف دونوں سے حال ہونے کا ذکر کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو لفظِ وحید کے ساتھ موصوف قرار دینا بھی درست ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ  میں اپنی ذات اور صفات اعتبار سے تنہا، یکتا، بے مثال اور بے نظیر ہونے کا عنصر بدرجہ اتم پایا جاتا ہے، لہذا اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہوئے عبد الوحید نام رکھنا بلا شبہ طرح شرعاً درست ہے اور وحید عبد اللہ نام رکھنا بھی جائز ہے، کیونکہ وحید لغتاً تنہا اور یکتا کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، البتہ اللہ تعالیٰ کی طرف اضافت کرتے ہوئے  وحید الرحمن نام رکھنا مناسب نہیں، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں یہ شخص اپنی ذات وصفات میں بے مثال اور بے نظیر ہے، جبکہ یہ بات حقیقت کے خلاف ہے۔

حوالہ جات
التفسير الكبير لفخر الدين الرازي (30/ 704) دار إحياء التراث العربي – بيروت:
أجمعوا على أن المراد هاهنا الوليد بن المغيرة، وفي نصب قوله وحيدا وجوه الأول: أنه نصب على الحال، ثم يحتمل أن يكون حالا من الخالق وأن يكون حالا من المخلوق، وكونه حالا من الخالق على وجهين الأول: ذرني وحدي معه فإني كاف في الانتقام منه والثاني: خلقته وحدي لم يشركني في خلقه أحد، وأما كونه حالا من المخلوق، فعلى معنى أني خلقته حال ما كان وحيدا فريدا لا مال له، ولا ولد كقوله: ولقد جئتمونا فرادى كما خلقناكم أول مرة.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

15/رجب المرجب 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے