021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نومسلم لڑکا پیدائشی مسلمان لڑکی کا کفو نہیں ہے
82805نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

بیٹی کا بیان:

مجھے ایک مشکل صورتحال میں اپ کی رہنمائی چاہیے، میں ایک 22 سال کی پاکستانی مسلمان لڑکی ہوں، حال ہی میں میری گفتگو ایک 23 سالہ رومانی لڑکے سے شروع ہوئی،جو پہلے عیساءی تھا اور اب اسلام قبول کر چکا ہے، اس نے مجھے میرے والدین کو اس معاملے میں شامل کرتے ہوئے نکاح کی پیشکش کی،  اس کےیقین، کردار اور اخلاقیات سے میں بہت متاثر ہوئی، جب سے میرے والدین نے میرے لیے ایک موزوں رشتہ دیکھنا شروع کیا ہے، میں ہر رات تہجد پڑھتی ہوں اور اللہ تعالی سے وہ خصوصی خوبیاں جو میں اپنے ہونے والے ساتھی میں چاہتی ہوں عمر سے لے کر اس کی ظاہری شکل و صورت تک وہ مانگتی ہوں،ایسا کوئی ملنا ناممکن لگتاتھا،لیکن معجزاتی طور پر اللہ نے اس شخص کو میری زندگی میں بھیجا، جو میری دعاؤں پر پورا اترتا تھا اس کا کردار اور اصول قابل تعریف ہیں اور بہت سے پیدائشی مسلمانوں سے بہتر ہے۔

میں مسلسل استخارہ کر رہی ہوں اور میرا دل اسی سے شادی کرنے کی طرف مائل ہے، میں مانتی ہوں کہ اسلام کی تعلیمات مجھے اس طرح کی شادی کرنے   کا حق دیتی ہیں ،میں نے مختلف علمائے کرام کے بیانات سنے ہیں، جو ایک نومسلم بین ثقافتی اور مختلف نسل شادیوں کے بارے میں ہے وہ سب اس کے حق میں ہیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نو مسلم خواتین سے شادی ان کی بیٹیوں کی نو مسلموں سے شادی اور انصار اور مہاجرین کا   متنوع پس منظر  اس طرح کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

مثبت استخاروں کے بعد میں نے اپنے والدین سے رابطہ کیا اور ان سے اس معاملے میں دیکھنے کی بات کی ساتھ ہی اس لڑکے سے بات کرنے کی درخواست کی، وہ لڑکا پاکستان آنا چاہتا ہے، ان سے ملنا چاہتا ہے اور بات کرنا چاہتا ہے، بد قسمتی سے میرے والدین اس سے بات کیے بغیر ہی اس معاملے میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں، ان کو ممکنہ نقل مکانی  کے بارے میں خدشات ہیں، اس کے باوجود کہ میں نے انہیں بتایا کہ اللہ کا حکم  ماننے میں بہتری ہے، چاہے وہ ہمیں جہاں بھی لے جائے، میں نے  والد کے دوستوں کی مثالیں دی، جنہوں نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں باہر کے ملکوں میں کیں، میرے والدین کو اس کا ایک نو مسلم ہونے پر بھی اعتراض ہے، جبکہ وہ پیدائشی مسلمان ہونے والے لوگوں سے زیادہ صاف اور شفاف ہے۔

 ان کا کہنا ہے کہ اس کی ماں عیسائی ہے، لیکن میں نے انہیں یہ بتا دیا کہ میں اس آدمی سے شادی کر رہی ہوں، اس کے خاندان سے نہیں۔ میں نے انہیں علماء کرام کی ویڈیوز دکھائیں، جو اس طرح کی صورتحال میں حل بتا رہے ہیں۔

وہ ایک ذمہ دار،آزاد اور عزت دار آدمی ہے اپنے خاندان کے لیے اس کے کماتا ہے، کیونکہ اس کے والد اس کے بچپن میں انتقال کر گئے تھے، میرے والدین میرے لیے ایک پورے ایمان والا آدمی چاہتے ہیں، وہ میرے ایک نو مسلم کی چناؤ سے مایوس ہوئے ہیں، جبکہ مجھے  اس حلال جوڑ سے کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا سیکھنا اور ایمان میں آگے بڑھنا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، میں اپنے والدین کی خواہشات کا احترام کرنا چاہتی ہوں، اسی لیے میں چاہتی ہوں کہ وہ اس کو مان جائیں کم از کم اس سے بات کریں اور اس معاملے کو آگے بڑھائیں۔

 ان کے اعتراض مذہبی بنیادوں کے بغیر ہیں اور وہ صرف جذباتی فیصلوں پر چل رہے ہیں، وہ شخص نہ پہلے سے شادی شدہ ہے، نہ طلاق یافتہ ہے اور نہ اس کے کوئی بچے ہیں جو اس نے مجھے بتایا ہے، ایک تیسرے بندے کے نقطہ نظر سے یہ قابل بھروسہ نہیں ہو سکتا، جو اس نے مجھے بتایا ہے اسی لیے وہ پاکستان آنا چاہتا ہے اور میرے والدین سے ملنا چاہتا ہے، تاکہ وہ اس کو جانیں اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ میرے والدین رومینیا جائیں اس کے بارے میں ساری پوچھ گچھ کریں اور ہر چیز کی چھان بین کریں۔

 نہ میں اور نہ ہمارے والدین اب تک اس سے ملے ہیں، میں یہ بالکل کرنا چاہوں گی، لیکن میرے والدین اعتراض کر رہے ہیں،مجھے پورا یقین ہے کہ جب میرے والدین اس سے ملیں گے، اس کو جانیں گے اور ہر چیز کی جانچ کر لیں گے تو وہ اس کو ضرور قبول کر لیں گے اور میرے اس نقطہ نظر کو سمجھ لیں گے، جن لڑکوں کو میرے والدین میرے رشتے کے لیے دیکھ رہے ہیں، وہ میری ترجیحات سے بالکل مطابقت نہیں رکھتے، اس کے متضاد ایک غیر ملکی اور بظاہر ایک نو مسلم سے شادی کرنے کا مشکل فیصلہ ایک مختلف نسل سے شادی کرنا اور یہاں سے دور جانا یہ میرے لیے سکون کا باعث ہے جب بھی میں اپنے مستقبل کو دیکھتی ہوں، میں آپ کے قیمتی مشورے رائے اور آپ کی رہنمائی کی منتظر ہوں اور چاہتی ہوں کہ آپ میرے والدین کو بھی نصیحت کریں کہ اس معاملے کو کیسے لے کے چلنا ہے؟ وہ علماء کے نقطہ نظر کو سننے کے لیے تیار ہیں۔

والد کا بیان:

 اس جگہ رشتہ کرنے میں میرے کچھ تحفظات ہیں:

نمبر1:

  وہ لڑکا اس بات چیت شروع ہونے سے پہلے ہی اسلام کی طرف راغب تھا اسلام کامطالعہ کر رہا تھا، لڑکی کے بتانے پر کہ عیسائی سے نکاح ممکن نہیں تقریبا دو ماہ بعد اس نے اسلام قبول کر لیا،جس ملک میں اس لڑکے کی رہائش ہے وہاں کل آبادی کا ایک فیصد بھی مسلمان نہیں ہیں، شہر میں ایک ہی مسجد ہے، جو غیر آباد ہے،لڑکے کے خاندان میں ایک بھی شخص مسلمان نہیں ہے ،حتی کہ اس کی ماں اور سگا بھائی بھی عیسائی ہیں، سب سے بڑا تحفظ میرا یہ ہے کہ وہ ملک دار الکفر ہے، بے شک وہ لڑکا نو مسلم ہے ،ایمان میں پکا ہوگا، مگر بغیر جانے اور ملے زندگی بھر کے نباہ کے لیے اپنی بیٹی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دینا میرے لیے اسان فیصلہ نہیں ہے اور اتنا لمبا سفر اتنے دوری پر انا جانا اور ملنا ملانا بھی کوئی آسان بات نہیں ہے۔

نمبر :2

 معاشی طور پر حالات یہ ہیں کہ لڑکے کی والدہ ملازمت کرتی تھی جو کلیننگ  یعنی صفائی ستھرائی کا کام ہے اور اب لڑکا شتر مرغ کے  افزائش نسل کا کام  کرتا ہے 15 یا 16 شتر مرغ اس کا کل اثاثہ ہے جس کا سارا کام وہ خود کرتا ہے ایک گھر ہے اور فارم ہے یہ کسی لحاظ سے بھی ہمارا کفو نہیں ہے۔

نمبر3:

 وہ نو مسلم ہے اس کے ایمان  کی جانچ میں نہیں کر سکتا، ہم سے اچھا مسلمان ثابت ہوگا، دینی تعلیم تو ٹھیک ہے کہ نو مسلم ہے ابھی سیکھے گا ،لیکن دنیاوی تعلیم ہائی سکول تک ہے یعنی انٹر تک ہے رزق قابلیت سے نہیں اتا لیکن تعلیم میں بھی وہ جوڑ نہیں کفو نہیں روزگار کے لیے چاہے کاروبار ہو یا ملازمت اج کے دور میں تعلیم بہت ضروری ہے۔

مختصر یہ کہ جذبات اور ناعاقبت اندیشی کی بنیادی پر کیے گئے فیصلے کرنے  پر آمادہ کرتے ہوئے ہمارے کچھ علماء کرام نوجوان نسل کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں، والدین اپنی زندگی گزار چکے ہیں اور اب اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق بیٹیوں کو بیٹوں کو حاصل ہے، تصویر کا آدھا رخ دکھایا جاتا ہے صحابہ کرام سوشل میڈیا پر نعوذ باللہ ایک دوسرے کو جان کر شادی کا فیصلہ نہیں کرتے تھے، اس صورتحال کی کوئی مماثلت صحابہ کرام کے دور سے نہیں ہے ، صحابہ کرام تقوے کی بنیاد پر رشتے کیا کرتے تھے اور کسی کے خود بتانے پر ہم اس کے تقوے کو کیسے جج کر سکتے ہیں؟ نئی نسل کو یہ شے دینا کہ وہ اپنی زندگی کا ساتھی ڈھونڈیں اور والدین کو اطلاع دے دیں یہ درست ہے؟

حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کون متقی تھا؟ نباہ کیوں نہ ہو سکا ؟کیا تقوی نہ تھا ؟بلکہ کفو نہیں تھا اللہ تعالی نے امت کو سکھانا تھا کہ کفو ہونا بھی ضروری ہے ۔

ہزاروں میل کی دوری  پر آنا جانا جانچ پرکھ کرنا وہ بھی ان حالات میں جب جوڑ اور کفو بھی نہ ہو اورصرف جذباتیت اور سطحیت سے سوچا جا رہا ہو( اور اس کی وجہ وہ علماء کرام ہیں جو اپنے بیان میں بین ثقافتی اور مختلف نسلی اور نو مسلموں سے شادی کو اپنے طریقے سے پروموٹ کر رہے ہیں اور یہ کرنے میں بنیادی انتہائی بنیادی مسائل کو نظر انداز کر رہے ہیں )کوئی اسان کام نہیں ہے۔

آپ سے درخواست ہے رہنمائی فرمائیں؛ تاکہ ہم ہماری اولاد درست سمت میں اپنی راہ متعین کر سکے اور دنیا اور آخرت کے خسارے سے بچ سکیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطورتمہید دو باتیں جاننا ضروری ہیں:

  1. اسلام نے نکاح کے سلسلے میں لڑکے اور لڑکی کے درمیان چھ چیزوں میں کفو یعنی برابری کا اعتبار کیا ہے، ان میں ایک چیز اسلام بھی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لڑکا مسلمان نہ ہو تو اس کا بالاتفاق مسلمان لڑکی سے نکاح جائز نہیں، لیکن اگر وہ مسلمان ہوتو بھی دیکھا جائے گا کہ اس کا والد اور دادا مسلمان ہے یا نہیں؟ اگر اس کا باپ اور دادا مسلمان نہ ہوں تو ایسی صورت میں لڑکا خود مسلمان ہونے کے باوجود ایسی مسلمان لڑکی کا کفو نہیں ہو گا جس کے باپ اور دادا مسلمان ہوں۔
  2. عاقلہ بالغہ مسلمان لڑکی اگر ولی یعنی والدوغیرہ کی اجازت اور رضامندی سے غیر کفو میں نکاح کرے تو نکاح درست منعقد ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرے توموجودہ زمانے میں حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا اورایسی صورت میں لڑکے اور لڑکی کا اکٹھے رہنا ہرگز جائز نہیں ہوتا اور یہی امت کے جمہور علمائے کرام رحمہم اللہ کا موقف ہے۔

اس تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہےکہ صورتِ مسئولہ میں چونکہ مذکورہ لڑکے کے باپ اور دادا مسلمان نہیں ہیں اس لیے وہ آپ کی بیٹی کا کفو نہیں ہے، اگرچہ وہ ظاہری اعتبار سے عمدہ اخلاق اور اچھے کردار کا مالک ہو، لہذا آپ کی بیٹی کاآپ کی رضامندی کے بغیر از خود اس نومسلم لڑکے سے نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا، البتہ اگر اس سے ملاقات کرنے کے بعد آپ کو ظاہری اور باطنی اعتبار سے اس کے ایمان اور اسلام پر اطمینان ہو توآپ اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کر سکتے ہیں، کیونکہ غیرکفو میں ولی اجازت سے کیا گیا نکاح درست ہوتا ہے۔

لیکن یہ بات یاد رہے کہ لڑکے ایمان کی اچھی طرح تحقیق اور اطمینان حاصل کر لینا ضروری ہے، کیونکہ بعض اوقات لڑکے صرف نکاح کی خاطربھی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر دیتے ہیں، جبکہ وہ دل سے مسلمان نہیں ہوتے، جس کا نتیجہ بعد میں لڑکی اور اس کے گھر والوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔  نیز ایمان کی تصدیق وتحقق کے بعد نکاح ہوجانےصورت میں اگر لڑکا  لڑکی کو اپنے ساتھ لے جانا چاہے تو وطن کی دوری کے علاوہ چونکہ اس کے ملک میں مسلمانوں کی آبادی  ایک فیصد سے بھی کم  ہے، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے، اس لیے ایسے ملک میں اپنے دین اور ایمان کی حفاظت بہت مشکل ہے، خصوصاً جبکہ اس لڑکےکے خاندان میں اس کے علاوہ کوئی ایک شخص بھی مسلمان نہیں، اسی لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے دارالحرب کی طرف ہجرت کرنے کو ناپسند اور مکروہ قرار دیا ہے، لہذا بہتر یہ ہے کہ نکاح کرنے کی صورت میں آپ لڑکے کو اپنے وطن پاکستان میں رہنے کی ترغیب اور مشورہ دیں، اس کے لیے وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو بھی ساتھ لے آئے تو حرج نہیں۔ اس سے آپ کی بیٹی اور داماد کا ایمان بھی بچا رہے گا اور لڑکے کے خاندان والوں کو بھی ایمان کی طرف دعوت دینے کا ان شاء اللہ راستہ کھلے گا۔

حوالہ جات
 سنن أ داؤد (385/2)باب فی الإقامۃ بأرض المشرک،ط: میر محمد کتب خانہ:
قال رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم:’’ من جامع المشرک وسکن معہ فإنہ مثلہ‘‘
    معالم السنن في شرح سنن لأبي داود(2/ 272)للخطابي ،  المطبعة العلمية – حلب:
وفيه دليل على أنه إذا كان أسيرا في أيديهم فأمكنه الخلاص والانقلاب منهم لم يحل له المقام معهم وإن حلفوه فحلف لهم أن لا يخرج كان الواجب أن يخرج إلاّ أنه إن كان مكرها على اليمين لم تلزمه الكفارة، وإن كان غير مكره كانت عليه الكفارة عن يمينه. وعلى الوجهين جميعا فعليه الاحتيال للخلاص، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من حلف على يمين فرأى غيرها خيرا منها فليأت الذي هو خير وليكفر عن يمينه.
وقوله لا ترايا ناراهما فيه وجوه أحدها معناه لا يستوي حكماهما قاله بعض أهل العلم. وقال بعضهم معناه أن الله قد فرق بين داري الإسلام والكفر فلا يجوز لمسلم أن يساكن الكفار في بلادهم حتى إذا أوقدوا ناراً كان منهم بحيث يراها.
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 196) دار احياء التراث العربي، بيروت:
ومن أسلم بنفسه أو له أب واحد في الإسلام لا يكون كفؤا لمن له أبوان في الإسلام " لأن تمام النسب بالأب والجد وأبو يوسف ألحق الواحد بالمثنى كما هو مذهبه في التعريف "ومن أسلم بنفسه لا يكون كفؤا لمن له أب واحد في الإسلام " لأن التفاخر فيما بين الموالي بالإسلام والكفاءة في الحرية نظيرها في الإسلام في جميع ما ذكرنا لأن الرق أثر الكفر وفيه معنى الذل فيعتبر في حكم الكفاءة.
الاختيار لتعليل المختار (3/ 99) دار الكتب العلمية،  بيروت:
قال: (ومن له أب في الإسلام أو الحرية لا يكافئ من له أبوان) ؛ لأن النسب بالأب وتمامه بالجد. (والأبوان والأكثر سواء) ؛ لما بينا. وعند أبي يوسف الواحد والأكثر سواء، وقد سبق في الدعوى. ومن أسلم بنفسه لا يكون كفؤا لمن له أب واحد في الإسلام؛ لأن التفاخر بالإسلام.
الفتاوى الهندية (1/ 292) دار الفكر،بيروت:
ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخرا وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخرا أيضا حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك ولكن للأولياء حق الاعتراض وروى الحسن عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أن النكاح لا ينعقد وبه أخذ كثير من مشايخنا رحمهم الله تعالى، كذا في المحيط والمختار في زماننا للفتوى رواية الحسن وقال الشيخ الإمام شمس الأئمة السرخسي رواية الحسن أقرب إلى الاحتياط، كذا في فتاوى قاضي خان في فصل شرائط النكاح.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

11/رجب المرجب 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے