021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یوٹیوب چینل سے حاصل ہونے والی کمائی کا حکم
82765اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

السلام عليكم ورحمۃ الله وبركاتہ۔ علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ فیس بک یوٹیوب وغیرہ انٹرنیٹ سروسز جو ہیں جس پر پیج یا اکاؤنٹ وغیرہ بنا کر تلاوت اور دیگر اسلامی ویڈیوز ،نشریات شئیر کرنا ۔جن سے جو پیسے آتے ہیں کیا وہ جائز ہے ؟۔تفصیلا اور مدلل جواب درکار ہیں.؟ جزاك الله خيرا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یوٹیوب چینل سے حاصل ہونےوالی کمائی درج ذیل شرائط کے ساتھ جائزہے:

۱۔     چینل کسی جائز مقصد(دعوتی، تعلیمی ، اصلاحی  مقاصد) کےلیےبنایاگیاہو۔

۲۔    چینل میں کسی قسم کی خلاف شرع ویڈیوزاور مواد اپلوڈ نہ کیا جاتاہو۔

۳۔    اپنے چینل میں ایسےاشتہارات کوفلٹرزکردیاجائےجوخلاف شرع ہوں (یعنی خلاف شرع اشتہارات نہ چلتے ہوں مثلاً:  نامحرم کی تصاویر یا میوزک وغیرہ) ۔

۴۔   کسی جائز کاروباریاپروڈکٹ سےمتعلق اشتہارات چلتےہوں۔

۵ ۔   اشتہارات کی کیٹگریزفلٹر کرنے اور احتیاط کےباوجود گوگل کی طرف سے مالک کی رضامندی کےبغیراگرخلاف شرع یاناجائز کاروباراور پروڈکٹ کےاشتہارات چلائی گئی ہوں،توریویو سینٹر میں اشتہارات کاجائزہ لے کر ناجائز اشتہارات کی آمدن صدقہ کر دی جائے۔

 مذکورہ شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے یوٹیوب سے حاصل ہونےوالی انکم اور کمائی حلال ہے۔(ماخوذ از تبویب: 74807)

یوٹیوب  کی کمائی کے حکم سے متعلق جامعہ کے دارالافتاء سے تفصیلی فتوی جاری ہوا ہے جو دارالافتاء کی ویب سائٹ   پر  موجودہے ۔( حوالہ نمبر: 70225،  گوگل ایڈسینس اور یوٹیوب کی کمائی کا تفصیلی حکم، https://almuftionline.com/2020/10/03/2833/)

حوالہ جات
القرآن الکریم ( المائدہ: (120:
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪۔
الدر المختار و حاشية ابن عابدين،( 6/392، ط: دار الفكر):
قال الحصكفيؒ: " (و) جاز (إجارة بيت بسواد الكوفة) أي قراها (لا بغيرها على الأصح) وأما الأمصار وقرى غير الكوفة فلا يمكنون لظهور شعار الإسلام فيها وخص سواد الكوفة، لأن غالب أهلها أهل الذمة (ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر) وقالا لا ينبغي ذلك لأنه إعانة على المعصية وبه قالت الثلاثة زيلعي."
قال ابن عابدين ؒ: " (قوله وجاز إجارة بيت إلخ) هذا عنده أيضا لأن الإجارة على منفعة البيت، ولهذا يجب الأجر بمجرد التسليم، ولا معصية فيه وإنما المعصية بفعل المستأجر وهو مختار فينقطع نسبيته عنه، فصار كبيع الجارية ممن لا يستبرئها أو يأتيها من دبر وبيع الغلام من لوطي والدليل عليه أنه لو آجره للسكنى جاز وهو لا بد له من عبادته فيه اهـ زيلعي وعيني ومثله في النهاية والكفاية.
فقہ البیوع314/1):)
ولكن معظم استعمال التلفزيون في عصرنا في برامج لاتخلو من محظور شرعی ، وعامة المشترين يشترونه لهذه الأغراض المحظورة، من مشاهدة الأفلام والبرامج الممنوعة ، وإن كان هناك من لا يقصد به ذلك . فبما أن استعماله في مباح ممكن ، فلا نحكم بالكراهة التحريمية في بيعه مطلقاً ، إلا إذا تعين بيعه لمحظور ، ولكن نظراً إلى معظم استعماله لا يخلو من كراهة تنزيهية . وعلى هذا ، فينبغي أن يتحوط المسلم في اتخاذ تجارته مهنة له في الحالة الراهنة ، إلا إذا هيأ الله سبحانه جواً يتمحض أويكثر فيه استعماله المباح .

صفی اللہ

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

13/رجب المرجب/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

صفی اللہ بن رحمت اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے